غزل
کوئی سایہ رخ دیدار پر ابھرا نہیں ہے کیا
شناسا شہر میں جیسے کوئی رہتا نہیں ہے کیا
در و دیوار پر کیوں ہجر کے جالے سے چھائے ہیں
زمانے سے کوئی دہلیز پر آیا نہیں ہے کیا
تری آنکھوں کا منظر بھی بہت سنسان لگتا ہے
تری بھی سوچ پلکوں پر کوئی رہتا نہیں ہے کیا
مجھے بھی ہارنے میں اب کوئی لذّت نہیں ملتی
تجھے بھی زیر کرنے میں مزہ آتا نہیں ہے کیا
پلک پر میری آنکھوں کے یہ کیسی دھند چھائی ہے
اجالا خواب کے بھی شہر میں پھیلا نہیں ہے کیا
کسی بت سے تو اے عادل تجھے بھی دل لگانا تھا
کوئی بھی شخص دنیا میں ترے جیسا نہیں ہے کیا
**************