غزل
دیکھی ہے جب سے اس کی جھلک ہوش بھی نہیں
لگتا مگر ہے ایسا کہ مدہوش بھی نہیں
پھر بھی قدم ملائے ہوئے چل رہا ہوں میں
چہرہ تھکن سے چور ہے اور جوش بھی نہیں
اپنی زبان سے تو اسے کچھ نہ کہہ سکا
پر آنکھوں کی زبان میں خاموش بھی نہیں
حاصل ہے جو اسے وہ مقدر کا کھیل ہے
کس سے کرے وہ شکوہ کہ پاپوش بھی نہیں
رکھنا قدم سنبھال کے اس راہ میں حیات
کہنا نہ پھر کبھی کہ مرا دوش بھی نہیں
*********