آنکھوں میں کچھ خواب جگاکر رکھتا ہوں
پھر ان کو زنجیر لگاکر رکھتا ہوں
پتھر کوئی پھینک کے ٹھہرے پانی میں
جھیل میں دل کی شور مچاکر رکھتا ہوں
جانے کہاں سے پیاسی چڑیاں آجائیں
آنکھوں میں کچھ اشک بچاکر رکھتا ہوں
سونے سونے اجلے اجلے لمحوں میں
صدیوں کی امید چھپاکر رکھتا ہوں
سوچ پلک پر کس کا سایہ رہتا ہے
کس کو اپنے دل میں سجاکر رکھتا ہوں
چاروں جانب کالی ناگن رقصاں ہے
گھر میں اپنے دیپ جلاکر رکھتا ہوں
آس کا جگنو دور بہت ہی لگتا ہے
سوچ نگر میں اس کو لاکر رکھتا ہوں
کس سے میری دوری بڑھتی جاتی ہے
کس کو اپنی جان بناکر رکھتا ہوں
بانٹ کے خوشیاں عادل اپنے حصے کی
خالی دامن پاس بچاکر رکھتا ہوں
عادل حیات
Department of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi 110025
Mobile No.: 9313055400
Emai: adilhayat10@gmail.ocm
…