* بچ بچا کر جسم سے بھاگا کوئی *
غزل
٭………علیم اللہ حالی
بچ بچا کر جسم سے بھاگا کوئی
گرتی دیواروں کی زد میں تھا کوئی
اس قدر دست رسائی سے گریز
ہم نہ ساحل ہیں نہ تم دریا کوئی
لوٹ آتے دشتِ تنہائی سے ہم
شہر میں آواز دیتا کوئی
سارے دن سگریٹ کے مرغولوں میں بند
رات بھر خوابوں کا قیدی تھا کوئی
میرے دریا تو شناور کو نہ بھول
دیکھ تو تہہ میں تری ڈوبا کوئی
وہ بھی ہے لفظوں کے مجلس میں اسیر
ان لکیروں سے نکل آتا کوئی
****** |