* دوستو ! گر جھوٹ کی پھٹکار بڑھتی جائ *
غزل
دوستو ! گر جھوٹ کی پھٹکار بڑھتی جائے گی
دیکھتے جانا، خدا کی آر، بڑھتی جائے گی
’ٹھپہ بازی‘ پر ہے جب دار ومدار انتخاب
آپ گھٹتے جائیں گے سرکار بڑھتی جائے گی
رشوت آباد عمل ہے کاروبار زندگی
اور ابھی یہ گرمی بازار بڑھتی جائے گی
اختلاط خیروشر، غنڈوں میں گر قائم رہا
یہ خلیج کافر ودیندار بڑھتی جائے گی
ماننے کی بات کو بھی گرنہ مانے گا کوئی
بحث بڑھتی جائے گی تکرار بڑھتی جائے گی
مجرموں کی دھڑپکڑ سے ہوگی گر پہلو تہی
طاقتِ ہر مردم خونخوار، بڑھتی جائے گی
کیف اندر کیف ہے یا لطف اندر ہے
آپ پڑھئے! لذت اشعار بڑھتی جائے گی
+++
|