* اٹھا میں کر کے ترک تمنا ابھی ابھی *
غزل
اٹھا میں کر کے ترک تمنا ابھی ابھی
کرنے لگا وہ شوخ تماشا ابھی ابھی
فوج عدو ہوئی ہے صف آرا ابھی ابھی
بننا ہے مجھ کو چھپ کے گوریلا ابھی ابھی
جو زخم خوردہ ستم روزگار ہے
کرنا ہے مجھ کو اس کا مداوا ابھی ابھی
ماتم نشین عقل ہے مسجد میں اک امام
کھا کر فریب وعدۂ اندرا، ابھی ابھی
لایا مرا ملازم احمق میں کیا کہوں
آلو کے ساتھ آلو بخار ابھی ابھی
ہیں وہ خموشی لب ساحل بنے ہوئے
الٹی بہا چکے ہیں جو گنگا ابھی ابھی
کیا جانیں وہ کہ قوم کی خدمت ہے کس کا نام
آیا ہے جن کی جیب میں پیسہ ابھی ابھی
نیچی نگاہ کرکے چلے جارہے ہیں وہ
اونچا ہوا ہے جن کا ترنگا ابھی ابھی
کاکا توا، نے کانگریس آئی سے کہہ دیا
الو ہوا ہے آپ کا سیدھا ابھی ابھی
چھیڑا تھا جس نے نغمہ اندرا بہ ساز نرخ
بھاگا ہے چھوڑ چھوڑ کے طلبہ ابھی ابھی
++
|