* امیر قافلہ شوق لامکاں مخدوم *
غزل
امیر قافلہ شوق لامکاں مخدوم
شرف ہیں دین کے فردو آشیاں مخدوم
چلو چلو کہ چھڑا ہے فسانہ لاہوت
سنا رہے ہیں حقیقت کی داستاں مخدوم
دعائیں جھوم رہی ہیں درِ اجابت پر
خدا کے سامنے ہیں میرے ترجمان مخدوم
مجھے ہیں یاد جناب مظفر بلخی
سلوک میں کبھی لیتے ہیں امتحاں مخدوم
ہنوز بوئے بلخ باقی ہے مظفر میں
ہوئے زبان مبارک سے گلفشاں مخدوم
محیط ارض وسماوات ہو خدا کی قسم
تمہیں کو پایا، میں پہنچا جہاں جہاں مخدوم
تمہارا خرقہ کچھوچھہ شریف میں دیکھا
ہو عرسِ حضرت سلطاں میں تم عیاں مخدوم
یہ کہتے تھے سر مجلس جناب پیر مجیب
کہ صوفیوں کے ہیں دراصل میزباں مخدوم
حضور قلب جو شرط صلوٰۃ مومن ہے
کہاں ملیں جو نہ ہوں دل کے پاسباں مخدوم
الجھ کے ذہن خصوص الحکم، میں رہ جاتا
جو عین وقت پہ آتے نہ درمیاں مخدوم
پڑھو تو مسئلہ وحدۃ الوجود، پڑھو
جو کر گئے کسی مکتوب میںبیاں مخدوم
پڑھوں گا میں بھی یہ تسبیح تحفہ ابدال
کبھی جو پڑھتے تھے سبحان ذی الاماں مخدوم
یہ راز اہل طریقت بتا گیا واقف
ہیں اولیا کی رگوں میں رواں دواں مخدوم
+++
|