ارشد مینا نگری
عید اور تنہائی
پھول پہ جیسے برق لہرائے
شعلہ زن دھوپ ، بن گئے سائے
یوں کسی کو نہ کوئی تڑپائے
عید آئی ہے تم نہیں آئے
پیار میں نے عبث کیا تم سے
پیار دے کر ستم لیا تم سے
مل رہی ہے سزا پیا تم سے
دل میرا مجھ سے آج شرمائے
عید آئی ہے تم نہیں آئے
میرا دلبر ، میرا ستمگر ہے
مجھ سے روٹھا میرا مقدر ہے
عید بھی مجھ کو غم کا منظر ہے
کیوں مسرت بھی دل پہ غم ڈھائے
عید آئی ہے تم نہیں آئے
دل تڑپتا ، نظر ترستی ہے
مجھ کو ویران بستی بستی ہے
موت کی طرح میری ہستی ہے
کاش ارشدؔ کہ موت آ جائے
عید آئی ہے تم نہیں آئے
+++