* مہکی ہیں فضائیں کس کے لئے چھائی ہی *
غزل
مہکی ہیں فضائیں کس کے لئے چھائی ہیں گھٹائیں کس کے لئے
میخانے میں جب ساقی ہی نہیں میخانے میں جائیں کس کے لئے
جب مجھ سے نگاہیں ملتے ہی تم آج خفا ہو بیٹھے ہو!
پھر یہ تو بتائو کل تم نے مانگی تھی دعائیں کس کے لئے
وہ رسمِ خرد کے دیوانے، ہر طرز جنوں کے شیدائی
وہ ہوش گنوائیں کس کے لئے ہم ہوش میں آئیں کس کے لئے
اے توبہ شکن، اے غنچہ دہن، اے عشوہ طراز صبحِ چمن!
یہ مست نظر، یہ شوخ ہنسی، یہ خاص ادائیں کس کے لئے
ہنگاموں سے وہ ڈر جاتے ہیں، تنہائی سے گھبرا جاتے ہیں
ہم شہر اُجاڑیں کس کے لئے ویرانے بسائیں کے لئے
افسوس ایاز اب کوئی نہیں جو اہلِ وفا کی لاج رکھے
تاریک فضائوں میں آخر ہم شمعیں جلائیں کس کے لئے
٭٭٭
|