* جو شاخ ٹوٹتی ہے لچکتی ضرور ہے *
غزل
جو شاخ ٹوٹتی ہے لچکتی ضرور ہے
بجھنے سے پہلے شمع بھڑکتی ضرور ہے
ہوتا ہے جس کو دعویٰ کسی کی تلاش کا
کہتے ہیں وہ نگاہ بھٹکتی ضرور ہے
جو جام چھو لیا ہو کسی بے شعور نے
اُس جام سے شراب چھلکتی ضرور ہے
وہ حسن کیا جو سینکڑوں پردوں میں ہو نہاں
بجلی ہے جس کا نام چمکتی ضرور ہے
+++
|