* مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے *
غزل
مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے
جو چاہا جائے وہ ہوتا نہیں ہے
کہوں غمگسارو سے کہوں کیا
کئی دن سے تمہیں دیکھا نہیں
پشیماں ہوں تری محفل سے اٹھ کر
کسی نے بھی مجھے روکا نہیں ہے
بہت بیتاب ہیں آنکھو ں میں آنسو
کوئی اپنا نظر آتا نہیں ہے
جدھر دیکھو مری رسوائیاں ہیں
تعجب ہے ترا چرچا نہیں ہے
نگاہیں دوستوں کی جھک گئی ہیں
مجھے غیروں نے ٹھکرایا نہیں ہے
محبت میں ہے کچھ کچھ عقل شامل
یہ دل ہی دل کا سرمایہ نہیں ہے
تم آخر کیوں پریشاں ہو رہے ہو!
ایاز اپنوں سے بے گانہ نہیں ہے
٭٭٭
|