* رہ عشق میں جاں لٹانے کی باتیں *
غزل
رہ عشق میں جاں لٹانے کی باتیں
یہ اب ہیں پُرانے زمانے کی باتیں
ہوئی برق سے دوستی جس گھڑی سے
بھُلادیں سبھی آشیانے کی باتیں
مجھے راہ میں چھوڑ کر چل دیئے وہ
جو کرتے تھے منزل کو پانے کی باتیں
وہ آکاش کی سیر کرنے کے قصّے
وہ آنچل پہ تارے سجانے کی باتیں
کرو بس ہمارے تمہارے ملن کی
نہ چھیڑو یہ سارے زمانے کی باتیں
رعایا کو جب لوٹنا ہو تو کیجیے
خلفیے کے خالی خزانے کی باتیں
جسے دیکھو کمزور تم سے بہت ہے
کرو اس سے پنجہ لڑانے کی باتیں
فائیز تو جاں کو گنوا ہی چکے ہیں
نہ پھر سے کرو آزمانے کی باتیں
****** |