* اُن کا لہجہ رباب سے بڑھ کر *
غزل
اُن کا لہجہ رباب سے بڑھ کر
ہر ادا ہے شباب سے بڑھ کر
یوں تو معصوم ہیں بہت لیکن
شوخیاں ہیں عذاب سے بڑھ کر
عارضوں پر ہے شام کی سرخی
ہونٹ اُن کے گلاب سے بڑھ کر
دل کے شیشے میں اور کیا ہوگا
اُس حسیں ماہتاب سے بڑھ کر
وہ جو اُس کے بِنا گزاری ہے
زندگی تھی عذاب سے بڑھ کر
اُن کی چپ میں ہزار قصے ہیں
خامشی تھی کتاب سے بڑھ کر
کہہ دو اُن سے فرح نہیں کوئی
دل میں میرے جناب سے بڑھ کر
فریدہ لاکھانی فرح
Sidni
(Austrelia)
Mob: xxxxxxxxxx
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|