* سمجھی نہ جسے میں وہ نظارا ہے ادھر ب *
غزل
سمجھی نہ جسے میں وہ نظارا ہے ادھر بھی
خاموش ادائوں کا اشارہ ہے ادھر بھی
آنکھوں میں وہ طوفان و تلاطم کی طرح تھا
اک اشک جو یادوں نے اتارا ہے ادھر بھی
سچ سننے کی چاہت ہے نہ عادت ہی ہے اُس کو
بس جھوٹ ہے ایسا کہ جو پیارا ہے ادھر بھی
دیکھا ہے بہاروں میں خزائوں کا مچلنا
اک موسم گل ہم نے گزارا ہے ادھر بھی
ٹوٹی ہوئی کشتی کے مسافر کو بتا دو
دریا کا فرح ایک کنارہ ہے ادھر بھی
فریدہ لاکھانی فرح
Sidni
(Austrelia)
Mob: xxxxxxxxxx
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|