* بیانِ شوق بنا، حرفِ اضطراب بنا *
غزل
٭…حسن نعیم
بیانِ شوق بنا، حرفِ اضطراب بنا
وہ اک سوال کہ جس کا نہ کچھ جواب بنا
میں ایک باب تھا افسانۂ وفا کا مگر
تمہاری بزم سے اٹھا تو اک کتاب بنا
مجھے سفیر بنا اپنا کو بہ کو اے عشق
کسے ہوس ہے کہ دنیا میں کامیاب بنا
میں جس خیال کو اپنا جنوں سمجھتا تھا
وہی خیال زمانے کا حسن خواب بنا
کبھی تو وجہِ کرم بن گئی ہے خود داری
کبھی نیاز طلب باعـثِ عتاب بنا
سرائے دل میں جگہ دے تو کاٹ لوں اک رات
نہیں یہ شرط کہ مجھ کو شریکِ خواب بنا
جو ایک داغ کی صورت رہا شبِ امید
نجومِ دل میں وہی دور آفتاب بنا
مجھے نہ خاک میں ملنے دے اے غمِ پنہاں
جو بن سکوں تو مجھے نقشِ لا جواب بنا
****** |