* مرا ہر لفظ بے توقیر رہنے کے لئے ہے *
مرا ہر لفظ بے توقیر رہنے کے لئے ہے
مرا ہر خوف دامن گیر رہنے کے لئے ہے
میں جس شہر جمال، آثار کا مارا ہوا ہوں
وہ سارا شہر بے تعمیر رہنے کے لئے ہے
میں ایسے خواب کی پاداش میں معتوب ٹھہرا
جو ساری عمر بے تعبیر رہنے کے لئے ہے
ذرا سی دیر میں بجھ جائیں گی سب مہر و مہتاب
یہ دعویٰ کیا کہ ہر تنویر رہنے کے لئے ہے
ذرا سی دیر میں دھندلا کے رہ جائے گا ہر نقش
گماں یہ تھا کہ ہر تصویر رہنے کے لئے ہے
نہ یہ آب و ہوا ہے شہر جسم و جاں دوامی
نہ میرے درد کی جاگیر رہنے کے لئے ہے
نہ اقلیمِ ہنر میں عظمتِ غالب سلامت
نہ اعجازِ کلام میر رہنے کے لئے ہے
کہیں محفوظ ہے لوحِ فنا پر ایک تحریر
بالآخر اِ ک وہی تحریر رہنے کے لئے ہیں
********************************* |