غزل
مکیں غائب، مکاں رکھا ہوا ہے
ہمارا دل کہاں رکھا ہوا ہے
کہیں سود جہاں رکھا ہوا ہے
کہیں کار زیاں رکھا ہوا ہے
اے بلبل آ، گلوں کی بات سن لے
محبت میں جہاں رکھا ہوا ہے
زمیں والو! اٹھو اور چوم لو خاک
وطن میں خاکداں رکھا ہوا ہے
صنم! پچھلے پہر کی بات مت کر
وہ الّھڑپن کہاں رکھا ہوا ہے
اڑائے لاکھ وہ ’’سونے کی چڑیا‘‘
ہمارا گلستاں رکھا ہوا ہے
اگر تم اور اوپر جاکے دیکھو
زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے
****