غزل
ہیں آپ میرے ساتھ تو کیا ڈر لگے مجھے
یہ آگ ایک پھول کا بستر لگے مجھے
ہے خار زار عشق میں ہر ہر قدم سراب
شبنم کی ایک بوند سمندر لگے مجھے
میری نظر میں دل ہے سنو عشق کا معبد
گرجا، گرودوارا، نہ مندر لگے مجھے
سنتے ہیں تیرے ذوق کا کچھ دائرہ نہیں
پھر کیا سبب کہ دل ترا محور لگے مجھے
محبوب کس کو جانئے، معشوق کون ہے؟
ہر آدمی یہاں کا ستمگر لگے مجھے
جگنو کہ ماہ و آئنہ یا چاندنی کہو
ہر چیز کائنات کی، اخترؔ لگے مجھے
****