غزل
کس سادگی سے فکر و نظر لے گیا کوئی
دل میں اتر کے لعل وگہر لے گیا کوئی
تصویر کیا اتارے مصوّر جمال کی
گنجینۂ کمالِ ہنر لے گیا کوئی
نادیدہ عکس یار کو ہم دیکھتے رہے
آئینئہ جمالِ نظر لے گیا کوئی
شب گیر ’’خوابسار‘‘ میں روشن ہوا کرے
سرمایۂ وجود سحر لے گیا کوئی
’’موج فرات‘‘ پھر سے ’’لہو لہر‘‘ ہوگئی
سرسبز رنگ شام و سحر لے گیا کوئی
اب دھوپ ہی میں رہنا ہے، ناچار کیا کریں
اک ایک کرکے سارا شجر لے گیا کوئی
کیسا اصول شہر ہے، کیسا دیار ہے؟
ہم نے شجر لگائے، ثمر لے گیا کوئی
اخترؔ ’’سخن لباس‘‘ میں ملبوس تھا کبھی
نقشِ خواب و خیالِ بشر لے گیا کوئی
*******