غزل
برسوں ترا رقیب رہا، بے وفا نہیں
پھر کیا سبب کہ تو مجھے پہچانتا نہیں
کیابات، کیاقصور، مراکیا گناہ ہے؟
میں دیکھتاہوں پیار سے تو دیکھتا نہیں!
کس منہ سے دوں حساب غم داغ جرم کا
ننگِ بدن تھا کوئی فرشتہ تو تھا نہیں!
یوں کشمکش میں رات ہماری گزرگئی
میں نے کہا نہیں، کبھی اس نے کہا نہیں
اپنی ہوابھی آج ہواؤں سے مل گئی
ہم جس ہوا کو باندھتے تھے وہ ہوا نہیں
باد ِصبا جلانے چلی ’’برقِ سوزِ غم‘‘
آب و ہوا ہے، آگ ہے، کیا ہے، پتہ نہیں!
انجم تھے، چاندنی تھے کہ بدر و ہلال تھے
کس کس ادا میں آپ تھے شب بھر پتہ نہیں!
آنکھوں میں اس کی یاد کی تصویر ِغم نہ ہو!
ایسا ہو ا نہیں ، کبھی ایسا ہوا نہیں
************