غزل
بستر پہ جسم و تن نہیں، تکیے پہ سر نہیں
پھر بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ جادو کا گھر نہیں
کیا صبح وشام دیکھئے، آنا ہے جانا ہے
اس انجمن میں کوئی بھی دیوار و در نہیں
ہر اک صداے شوخ کو پہچانتے تھے ہم
اب کون آنے والاہے جس کی خبر نہیں
نادیدہ خواب یار کو کیا دیکھتی نظر
’’شب تاب‘‘ کے بغیر کوئی دیدہ ور نہیں
اے گیسوے غزل! تری زلفوں میں چھائوں ہے
باقی کسی بھی دھوپ میں کوئی شجر نہیں
اے’’آفتابِ غم‘‘، ترا جلنا جمال ہے!
کس زندگی کی شام میں روشن سحر نہیں
****