* دشتِ بدمزاج کا راستہ کھلا رہا *
دوستوں کی نذر ایک تازہ غزل
·
دشتِ بدمزاج کا راستہ کھلا رہا
اس جہاں میں قیس کا سلسلہ بنا رہا
بازگشت کے سوا گشت میں ہے سلسلہ
میں گیا تو کیا ہوا تُو رہا تو کیا رہا
دو طرح کے آئینے ایک عکس پر کھلے
ایک چیخ کر اٹھا ایک بے صدا رہا
شب گزیدہ خواب کی آنکھ کھل گئی تو کیا
لطف بے مزا ہوا ذائقہ بچا رہا
میں نے اپنی یاد کی پوٹلی سمیٹ لی
رہزنوں کی فوج میں رہنما بنا رہا
دوستوں کی چال سے لغزشیں نہیں گریں
میرے اک نشان پر دائرہ لگا رہا
میری ذات میں نہیں کیمیاگری مگر
جس کو میں نے چھو لیا وہ خدا بنا رہا
|