* رُوح میں دُور تک اُداسی ہے *
رُوح میں دُور تک اُداسی ہے
شام ہے یا چُڑیل پیاسی ہے
ہر گھڑی ایک بدحواسی ہے
زندگی اَن سُنی دُعا سی ہے
عمر بھر کی وفا کے بعد کُھلا
ہر تعلّق یہاں سیاسی ہے
ہر کسی سے نبھاہ کرتا ہوں
یہ ادا مجھ میں بھی خُدا سی ہے
حشر کس کس کا حشر میں ہو گا
یہ حکومت تو بس ذرا سی ہے
عشق اور بے وجود سے ساحلؔ
یہ زمیں آسماں کی داسی ہے
******* |