* اُداسیوں کا سمندر تھا میرے حصّے م® *
اُداسیوں کا سمندر تھا میرے حصّے میں
میں چُھپ گیا ہوں تری یاد کے جزیرے میں
وہ سنگِ میل ہوا وقت کے تغیّر سے
جو سر جُھکائے کھڑا رہ گیا تھا رستے میں
ہوا کے آخری جھونکے نے وہ بھی لوٹ لیا
شجر کا سارا اثاثہ تھا ایک پتّے میں
یہ کس شریر سے بچّے کے ہاتھ میں ہے قلم
کہ اُلٹی سیدھی لکیریں ہیں میرے نقشے میں
مجھے سکول کے رستے تو یاد ہیں ساحلؔ
مگر ! جو علم کی منزل تھی میرے بستے میں؟
******* |