* جس قدر دیکھ سکا اُس کے سوا کچھ بھی ن *
جس قدر دیکھ سکا اُس کے سوا کچھ بھی نہیں
مجھ کو تسلیم کی عادت ہے رضا کچھ بھی نہیں
بے حضوری کے زمانے کی طلب ہے دُنیا
ایک چُلّو کے سوا دستِ دُعا کچھ بھی نہیں
دشتِ ہجراں میں بہت دور نکل آیا ہوں
مجھ کو ویران سی وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں
آئینہ خانے بدلتے ہیں مرے نقش مگر
مجھ کو بے شکل زمانے سے گلہ کچھ بھی نہیں
کتنا رنگین ترنّم تھا مگر جانے دے
تُو نے دیکھا نہیں میں نے بھی سُنا کچھ بھی نہیں
دل نے اک عمر یہاں دھوم مچائی ہے مگر
اس جنوں خیزی کے صحرا سے ملا کچھ بھی نہیں
میں نے بے صرفہ کیا خرچ زمانہ ساحلؔ
اب مرے ہاتھ، لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
KHALID MALIK SAHIL
|