* وہ جو روشنی کا نصاب ہے وہی تیرگی کا *
وہ جو روشنی کا نصاب ہے وہی تیرگی کا نصاب ہے
یہاں بندی خانوں میں دوستو نئی بندگی کا نصاب ہے
صفِ نارساں میں کھڑا رہوں، تری داستاں میں پڑا رہوں
مری جان یہ تو عذاب ہے، یہ تو بے بسی کا نصاب ہے
دِلا! کس طرف ہوں میں گامزن، جہاں لاشیں بکھری ہیں بے کفن
جہاں دوستی میں ہے دشمنی جہاں خودکشُی کا نصاب ہے
کوئی غمگسار سے پوچھ لے، کوئی رازدار کو دیکھ لے
کہاں غمگساری فریب ہے، کہاں مخبری کا نصاب ہے
میں نے دیکھی سوچ کرید کر، میں نے دیکھا خواب کا ہر سفر
جہاں دوستی میں ثواب ہے وہاں دشمنی کا نصاب ہے
مرے ہاتھ میں وہ سکت نہیں جو کہ دستکوں کی پکار ہو
مرے عاشقی کے سکول میں ابھی دل لگی کا نصاب ہے
مرے رخت میں مرے بخت میں کوئی چاند ہے نہ زمین ہے
مری زندگی کا حساب ہی مری شاعری کا نصاب ہے
چلو آگ لینے پہاڑ سے، چلو برف کھوجنے دشت میںی
ہی کاوشوں کا مزاج ہے یہی عاشقی کا نصاب ہے
مجھے مل تو موجِ سخن میں مل، مجھے دیکھ سوچ کی آگ میں
مرے سرد لہجے کو بھول جا، یہ تو زندگی کا نصاب ہے
یوں تو راستوں میں کمی نہ تھی، کہیں زندگی بھی تھمی نہ تھی
رہے پھر بھی ساحلِ درد پر کہ یہی خوشی کا نصاب ہے
******* |