* دنیا داری کا تجربہ بھی نہیں *
دنیا داری کا تجربہ بھی نہیں
اور لفظوں کا اسرا بھی نہیں
جھوٹ بولوں تو جھوٹ لگتا ہے
مجھ کو ولیوں کی بد دعُا بھی نہیں
مجھ کو دریا کے پار جانا ہے
اور ہاتھوں میں مُعجزا بھی نہیں
نقش تازہ ہے ریت پر لیکن
دور تک کوئی قافلہ بھی نہیں
کیوں مسلسل سفر ہے قسمت میں
پیچھے دیکھا نہیں، رُکا بھی نہیں
کچھ بھی حاصل نہیں، جنوں سے مجھے
میرے پیروں میں آبلہ بھی نہیں
اُس شجر کو شجر نہیں کہتے
جس پہ چڑیوں کا گھونسلہ بھی نہیں
آگ بجھنے لگی ہے دشمن کی
ہاتھ میرا ابھی جلا بھی نہیں
کوئی حد بھی نہیں کہیں ساحلؔ
اور رستہ کہیں کھلا بھی نہیں
****** |