* کھلنے کو کچھ نہیں ہے تو پھر آسماں ک *
کھلنے کو کچھ نہیں ہے تو پھر آسماں کھلے
اور آسماں کا بھید، سرِ خاکداں کھلے؟
اک آئینہ ہے اور حقیقت نہیں کوئی
اس کائناتِ فکر میں کیسے گماں کھلے
اک لمحہ اختیار کا، وہ بھی نہیں ملا
ہم اس جہان پر جو کھلے ناگہاں کھلے
ابرِ سیاہ، چاند، یہ کھڑکی یہ آسماں
گیسو کھلے جو یار کے دیکھو کہاں کھلے
اک آہ وہ بھی سانس کی مُٹھی میں دَب گئی
حیرت کی واردات کوئی کیسے یاں کھلے
اک راستہ فرار کا دیکھا تو تھا مگر
کچھ آشنا قریب تھے، کچھ رازداں کھلے
چلنے لگیں ہوائیں شمال و جنوب سے
مشرق بجھا تو درد کے پھر بادباں کھلے
شام و سحر کے پھیر میں کچھ بھی نہیں ہے یار
رکھے ہیں ہم نے ہاتھ میں سود و زیاں کھلے
******* |