* چلو مسافر، اُداس شاموں کی رہ گزر م *
نظم::::::: چلو مسافر
------------------------
چلو مسافر، اُداس شاموں کی رہ گزر میں
ستارے ڈھونڈہیں
چھلکتی آنکھوں میں زندگی کے جو بچ گئے ہیں وہ خواب ڈھونڈہیں
بھٹکتی گلیوں میں آبلوں کے گلاب دیکھیں
پہاڑ سوچوں میں سبز رنگوں کے خواب دیکھیں
چلو مسافر
نشانِ منزل جو خواب سا ہے، جو آرزوں کا حادثہ ہے
اُسی کے رستے میں کہکشایں بکھیر دیں ہم
بقا کے رستے میں خیمہ زن ہیں،خطا کے لشکر، فنا کے لشکر
چلو مسافر فنا کے گھرسے
بقا کی کی منزل اُٹھا کے لائیں
حکائتوں میں حقیقتوں کا مزاج بھر دیں
کسی کے گھر میں
اندھیرے گھر میں
چراغ رکھ دیں
چھلکتی آنکھوں میں خواب رکھ دیں
***** |