* یوں تو صحراؤں کا سینہ بھی کشُادہ ہ *
یوں تو صحراؤں کا سینہ بھی کشُادہ ہے بہت
پا شکستوں کا مگر ایک اِرادہ ہے بہت
کاش آ جائیں ابابیلوں کے لشکر پھر سے
دشمنِ جاں مری طاقت سے زیادہ ہے بہت
خُوئے چنگیزی کا اب نام فقیری ٹھہرا
آج کے دور کا انسان بھی سادہ ہے بہت
جسم کی بُو نہ گئی اور مسیحا ٹھہرے
اُن کے مذہب میں فقط صاف لبادہ ہے بہت
جوشِ درویشی میں شاہوں سے یہ کہنا ہے مجھے
تاجِ شاہی کے لیے ایک پیادہ ہے بہت
آج ساحل دلِ خوش فہم کو اُمید سی ہے
اُن کا آنا نہیں ممکن بھی تو وعدہ ہے بہت
****** |