* سفر کی شام ستاروں سے پوچھ کر چلنا *
نقّاش سے
سفر کی شام ستاروں سے پوچھ کر چلنا
اندھیرے رستے گوائی نہیں دیا کرتے
نشانِ قتل سپاہی نہیں دیا کرتے
شہادتوں کا بھی اپنا مزاج ہوتا ہے
چمکتے دن کو سیاہی نہیں دیا کرتے
بجھا چراغ امانت ہے علم وحکمت کی
اندھیری رات میں جگنو کی اپنی طاقت ہے
زمیں کی کوکھ میں زرّہ حقیر تر ہے مگر
اِسی حقیر سے زرّے میں ایک دنیاہے
یہی خدائے حقیقت کا معُجزہ بھی ہے
یہی زمین کے باسی کا تجربہ بھی ہے
یہ معُجزے ہیں جو ایمان کا اثاثہ ہیں
یہ تجربے ہی تو زینہ ہیں آسمانوں کا
یوں معجزوں کے سمندر میں تجربے کرنا
سفر کی شام ستاروں سے پوچھ کر چلناgross
******* |