* یہ کیسے دَور کا سقراط بن کے جینا تھ *
غزل
(مظہر امام ( دہلی
یہ کیسے دَور کا سقراط بن کے جینا تھا
بجائے زہر، مجھے گالیوں کو پینا تھا
وہاں تھی تندیِ صہبا، یہاں شکستِ وجود
یہ سنگِ صبح ہے، وہ شب کا آبگینہ تھا
چھپی تھی موج کی بانہو ںمیں روحِ تشنہ لبی
چمکتی ریت میں ڈوبا ہوا سفینہ تھا
اکھاڑ لے گئے سایوں سے کھیلنے والے
ہزاروں سال کا گاڑا ہوا دفینہ تھا
لبِ سکوت سے بوسہ چرا لیا تھا جہاں
نگارِ خانۂ آواز ہی کا زینہ تھا
176-B, Pocket-l, Mayur Vihar Phase-l, Delhi-110091
|