* وہ دستِ طلب ہوں جو دعا کو نہیں اٹھت *
وہ دستِ طلب ہوں جو دعا کو نہیں اٹھتا
جو لب پہ کسی کے نہیں آئی وہ دعاہوں
اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہاہوں
بستی ہیں بسیرے کا ارادہ تو نہیں تھا
دیوانہ ہوں صحرا کا پتہ بھول گیا ہوں
جاتی ہی نہیں دل سے تیری یاد کی خوشبو
میں دورِ خزاں میں مہکتا ہی رہا ہوں
****************** |