* کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہ *
غزل
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
اک دفعہ ان سے ملے تھے جو اندھیری شب میں
اب کبھی ویسی حسیں رات نہیں ہوتی ہے
داستاں اپنی سنائوں تو سنائوں کیسے
ہر جگہ پہ تو ہر اک بات نہیں ہوتی ہے
جب سے قاتل کو بنایا ہے نگہباں سب نے
اس محلے میں خرافات نہیں ہوتی ہے
ہار جاتا ہے وہی جنگ میں بازی اکثر
جو یہ کہتا ہے میری مات نہیں ہوتی ہے
بات کرتا ہے معینؔ وہ بھی نوابوں جیسی
جس کی دوکوڑی کی اوقات نہیں ہوتی ہے
معین گریڈیہوی
Mob: 9708111470, 9135400171
E-mail:- moingqtd@gmail.com
Website: www.moingridih.blogspot.com
٭٭٭٭٭
|