* جلتا ہوں ہجر شاہد و یادِ شراب میں *
غزل
٭……مومن خاں مومنؔ
جلتا ہوں ہجر شاہد و یادِ شراب میں
شوقِ ثواب نے مجھے ڈالا عذاب میں
کہتے ہیں تم کو ہوش نہیں اضطراب میں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں
پھیلی شمیمِ یار مرے اشکِ سرخ سے
دل کو غضب فشار ہوا پیچ و تاب میں
رہتے ہیں جمع کوچہ جاناں میں خاص و عام
آباد ایک گھر ہے جہانِ خراب میں
بدنام میرے گریۂ رُسو سے ہو چکے
اب عذر کیا رہا نگہِ بے حجاب میں
مطلب کی جستجو نے کیا حال کر دیا
حسرت بھی اب نہیں دلِ ناکامیاب میں
ناکامیوں سے کام رہا عمر بھر ہمیں
پیری میں یاس ہے جو ہوس تھی شباب میں
ناصح ہے عیب جوئے دل آزار اس قدر
گویا ثواب ہے سخن نا صواب میں
کیا جلوے یاد آئے کہ اپنی خبر نہیں
بے بادہ مست ہوں شبِ ماہتاب میں
پیہم سجود پائے صنم پر دمِ وداع
مومنؔ خدا کو بھول گئے اضطراب میں
|