* فضا میں رنگِ الفت گھول دے گا *
فضا میں رنگِ الفت گھول دے گا
وہ جب زلفوں کو اپنی کھول دے گا
جو دیتا ہے دوائے درد ہم کو
وہ دل پر زخم بھی انمول دے گا
یہ آئینے کی فطرت میں ہے شامل
جو ہے سچ بات منہ پر بول دے گا
جو ہے ناآشنا خود ہی وفا سے
وہ کیا میری وفا کا مول دے گا
کسی کو بخشے گا وہ تختِ شاہی
کسی کے ہاتھ میں کشکول دے گا
ہماری کامیابی کا دریچہ
ہمارا عزمِ محکم کھول دے گا
ترازو وقت کے جو ہاتھ میں ہے
متاعِ فن وہ سب کی تول دے گا
وہ میرا ہمنوا مشتاقؔ بن کر
دلوں کے بیچ تلخی گھول دے گا
************ |