* انسانیت کا خون وہی چوستا رہا *
انسانیت کا خون وہی چوستا رہا
جو قوم کی نگاہ میں رہبر بنا رہا
تم دن کی روشنی میں بھی سوئے ہوئے رہے
میں شب کی تیرگی میں بھی جاگا ہوا رہا
حالات نے کیا مجھے بے بس کچھ اس طرح
بارِ غمِ حیات سے پیہم دبا رہا
بن کے متاعِ کوچہ و بازارِ زندگی
میں جسمِ ناتواں کی تھکن بیچتا رہا
قائم تعلقات تھے اُس سے کچھ اِس طرح
میرے قریب رہ کے وہ مجھ سے خفا رہا
میں اک خدا کے آگے جھکائے ہوئے تھا سر
وہ سیکڑوں خدائوں کے آگے جھکا رہا
مشتاقؔ میں بھی اپنی تمنا کے شہر میں
پرچم پیام امن کا لے کر کھڑا رہا
******************** |