* آبرو لٹ گئی ، مال و زور لٹ گیا *
آبرو لٹ گئی ، مال و زور لٹ گیا
ایک دو گھر نہیں گھر کا گھر لٹ گیا
اپنے کنبے کے ہمراہ کل رات کو
اک مسافر سرِ رہ گزر لٹ گیا
اُس جفا جو کی فتنہ گری دیکھئے
اک اشارہ کیا اور نگر لٹ گیا
خونِ انساں بہایا گیا اس طرح
عید کے دن ہی شہر جگر لٹ گیا
پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے
شاخ پھلنے سے پہلے شجر لٹ گیا
اک سہاگن کی عصمت پہ بجلی گری
شہر میں آج پھر ایک گھر لٹ گیا
تیرا مشتاقؔ کوئی غزل کیا کہے
جب گلستانِ فکر و نظر لٹ گیا
*************** |