* زندگی بھر ہم اُسی کی آرزو کرتے رہے *
زندگی بھر ہم اُسی کی آرزو کرتے رہے
جو حقارت سے ہمیں بے آبرو کرتے رہے
روز میں ناکام اُن کے وار کو کرتا رہا
وار مجھ پر روز ہی میرے عدو کرتے رہے
رات میں دیکھا گیا اُن کو بھی مصروفِ گناہ
دن میں جو ذکرِ الٰہی باوضو کرتے رہے
صبحِ نو ، بامِ اُفق سے نور چھلکاتی رہی
حمد رب کی طائرانِ خوش گلو کرتے رہے
جس کے رعبِ حسن کے افسانے ہیں دنیا میں عام
ہم سرِ محفل اُسی سے گفتگو کرتے رہے
جس نے بخشا ہی نہیں کچھ سوزشِ غم کے سوا
ہم بھی ناداں تھے اُسی کی جستجو کرتے رہے
وہ ہمارے سامنے تھا پھربھی ہم اُس کی تلاش
در بہ در ، صحرا بہ صحرا ، کو بہ کو کرتے رہے
اُس کا رب ہر روز اُس کو زندگی دیتا رہا
چارہ گر ہر روز اُس کو قبلہ رُو کرتے رہے
چھوڑ کر صحنِ گلستاں جانے کیوں مشتاقؔ ہم
ریگ زاروں میں تلاشِ رنگ و بو کرتے رہے
****************** |