* الفت میں بہکنے کا مزا اور ہی کچھ ہے *
الفت میں بہکنے کا مزا اور ہی کچھ ہے
صہبائے محبت کا نشہ اور ہی کچھ ہے
پُر لطف ہمیں لگتی ہیں ساون کی گھٹائیں
لیکن تری زلفوں کی گھٹا اور ہی کچھ ہے
جو صبح دم آتی ہے تری زلف کو چھوکر
مہکی ہوئی وہ بادِ صبا اور ہی کچھ ہے
ہنستے ہیں گلستان میں یوں لالہ و گل بھی
لیکن ترے ہنسنے کی ادا اور ہی کچھ ہے
مانا کہ شفق رنگ بہت خوب ہے لیکن
ہاتھوں کا ترے رنگِ حنا اور ہی کچھ ہے
جینے کو تو جی لیتے ہیں ہم تیرے بنا بھی
پاکر تجھے جینے کا مزا اور ہی کچھ ہے
دل اُس کی ادائوں پہ فدا کیوں نہ ہو میرا
اُس شوخ کا اندازِ حیا اور ہی کچھ ہے
ہیں سایہ فگن سر پہ بزرگوں کی دعائیں
مشتاقؔ مگر ماں کی دعا اور ہی کچھ ہے
***************** |