* اہلِ زر کی گزارش نہ خالی گئی *
اہلِ زر کی گزارش نہ خالی گئی
مفلسوں کی ہی فریاد ٹالی گئی
اُس حکومت سے امید انصاف کیا
ظلم پر جس کی بنیاد ڈالی گئی
جگمگانے لگی کہکشاں ہر طرف
روشنی جب فضا میں اچھالی گئی
تھا وہ سقراط ہنستے ہوئے پی گیا
سامنے زہر کی جب پیالی گئی
حکمِ سجدہ ہوا قدسیوں کے لئے
روح آدم کے تن میں جو ڈالی گئی
میں نقیبِ محبت زمانے میں تھا
مجھ سے دل میں کدورت نہ پالی گئی
تھا خدا کی نگاہوں میں معصوم وہ
پائوں میں جس کے زنجیر ڈالی گئی
کیا شباب اُن پہ آیا عذاب آگیا
اوڑھنی بھی نہ تن پر سنبھالی گئی
خواب کے در جو مشتاقؔ کھولے گئے
ہر حقیقت نظر سے چھپالی گئی
***************** |