غزل
مسلم سلیم
پری کا اسکے اندر سے نکلنا
جہانِ خواب بستر سے نکلنا
دہکتی ریت پر پھر میں نے دیکھا
سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا
جو ممکن ہو بجھادے پیاس میری
بجا ہے آب گوہر سے نکلنا
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت
دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پیکر تصویر میںِ خوں
محبت کا وہ منظر سے نکلنا
جو ممکن ہو تو پھر دنیا ہے جنت
ندامت نوکِ خنجر سے نکلنا
+++++++++++++++++