غزل
مسلم سلیم
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا
بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
اپنے اندر ہم نے اسکو اس طرح زندہ رکھا
زخم جب بھرنے لگے تو یاد کو تازہ کیا
کوئی سمجھوتانہیں قدروں سے شہرت کے لئے
اس لئے ہم نے سدا بطلانِ آوازہ کیا
داد کیا دوں یہ شفق مرہونِ حسنِ یار ہے
آسماں نے لے کے اُس رخسار سے غازہ کیا
کوئی تو مسلمؔ سبق سکھلائے اس نقّاد کو
بیر بل نے جیسے اک ملّا کو دو پیازہ کیا
*****************