* پھولوں کا پیغام عجب تھا *
پھولوں کا پیغام عجب تھا
تتلی کا انجام عجب تھا
جن پر اپنے نام کھدے تھے
ان پیڑوں کا نام عجب تھا
خاموشی سر پیٹ رہی تھی
گلیوں میں کہرام عجب تھا
آتی جاتی لہریں گننا
قید انوکھی، کام عجب تھا
چاند جہاں پر جھک جاتا تھا
دور کہیں وہ بام عجب تھا
دیواروں پر خود رو بیلیں
آنگن میں اک پام عجب تھا
چاند نگر کا رستہ ناصر
پوچھ رہی تھی شام، عجب تھا
(نصیر احمد ناصر، 1980)
|