* میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہی¬ *
میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو
وہ کون سا ہے پھول کہ باغوں میں نہیں جو
پانی میں، زمینوں پہ، ہوا میں اسے کھوجا
وہ کیسا نشاں ہے کہ سراغوں میں نہیں جو
ہوتی ہے کسی دیدہ ء نمناک کی لو سے
وہ روشنی کیسی ہے چراغوں میں نہیں جو
اس محفل احباب کی سرشاری عجب ہے
وہ مے بھی چھلک جائے ایاغوں میں نہیں جو
رنگت ہی نہیں، آب و ہوا کو بھی تو دیکھو
بگلوں میں کوئی بات ہے زاغوں میں نہیں جو
اک کار مسلسل ہے اسے چاہتے رہنا
لطف اس کا لگاتار ہے ناغوں میں نہیں جو
دیکھو نہ مرا جسم، مری روح جلی تھی
یہ داغ ہے وہ جلد کے داغوں میں نہیں جو
ناصر ہیں عجب بولیاں طاؤس زماں کی
اشجار کے پر غول کلاغوں میں نہیں جو
****************** |