* بتا میری آنکھوں میں جاگے ہوئے نم *
بتا میری آنکھوں میں جاگے ہوئے نم
تجھے کن زمانوں کی نیندوں نے گھیرا ہوا ہے
کسی درد کی سرزمیں پر
خدا بارشیں رو رہا ہے
کہیں ایک آنسو مرا
اس کی پلکوں پہ کیوں رک گیا ہے
بتا ساحلوں کی ہوا
کون سے شہر میں وہ مرا راستہ دیکھتی ہے
وہ جس نے سمندر کے بھیگے سفر میں کہا تھا
محبت جزیرہ ہے، دکھ بادباں ہے
بتا مجھ کو اسم رہائی
میں رسم جدائی ادا کر کے
سنگیں ستونوں کی لمبی قطاروں میں اس سے ملوں گا
اسے بازوؤں میں سمو کر
فقط ایک بوسے کے بدلے
زمینوں کی ساری مسافت اسے سونپ دوں گا
بتا روشنی کے نشاں
پانیوں میں چھپی سربریدہ چٹانوں کی آبی شبیہیں
ابد کے کناروں پہ سوئی ہوئی بوڑھی صدیوں کی تجرید ہیں
یا کسی داستانی سفر میں
جہازوں کے چپو چلاتے
غلاموں کی بےعکس چیخوں کی تجسیم ہیں
وقت کی آخری حد پہ اڑتے طلسمی پرندے
بتا وہ کہاں ہے
جسے یاد کر کے
عتیقی صداؤں کے مستول دل میں اترنے لگے ہیں
بتا اے زمینی ستارے
مسافر ترے خواب کیوں دیکھتے ہیں۔
(1993)
**************************** |