donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Naseer Ahmad Nasir
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* وہ ہمیں ملنے آتے ہیں *
وہ ہمیں ملنے آتے ہیں
ہواؤں اور بارشوں کے ساتھ
دروازوں کے پاس
ان کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں
اور خالی برآمدے
کپڑوں کی سرسراہٹ
اور جسموں کی مہک سے بھر جاتے ہیں
دیواریں الانگتے، چھتوں اور چھجوں سے پھسلتے
بےآواز قدموں سے چلتے ہوئے
بادلوں کے سایوں کی طرح
نیم پختہ دالانوں کے سناٹے میں
آنکھیں انہیں دیکھتی ہیں
دسترس سے دور
اور طویل فاصلوں کی طرف جاتے ہوئے
 
کھڑکیاں منہ کھولے ہوئے
اونگھتی ہیں
اور سوچتی ہیں
کہ زمین کو پچھاڑ کر
اس کے سینے پر بیٹھے
فتح مندی سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے
ان پہاڑوں سے پرے بھی
کوئی جھیل ہو گی
اور پرندے
اور سفید بادل
اور ایک دوسرے میں مدغم ہوتے ہوئے
گھنے درختوں کے جھنڈ
ناہموار گھاس کے میدان
ریوڑ اور تنہا گڈریے
اور دور جاتے ہوئے راستے ہوں گے
کوئی گاؤں، کوئی شہر ہو گا
یا پھر کوئی دوسرا ملک
جہاں (میری طرح ) کوئی شاعر بیٹھا
نظمیں لکھ رہا ہو گا
 
کاغزوں پر حدیں بادھنا آسان ہے
چند نقطوں اور لکیروں سے
پہاڑ، ندیاں، نالے، نشیب
کھیت، بستیاں، علاقے، عملداریاں
درے اور خفیہ راستے
یہاں تک کہ قلعے اور فصیلیں
اور فصیلوں پر
آہنی سروں کی قطاریں بن جاتی ہیں
مگر دیواریں الانگتے سایوں
دروازوں، کھڑکیوں، دالانوں
اور دلوں کے دوردراز منطقوں تک پھیلے
سناٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے
زمیبن کے نقشے پر
دھوپ اور بارش کا رنگ بدل جاتا ہے
 
(1994نثری نظم)
*****************************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 304