donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Naseer Ahmad Nasir
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* یہ سچ کی وہی فصل ہے *
یہ سچ کی وہی فصل ہے
جو مٹی کی نمو سے اٹھی
اور آسمان تک پھیل گئی
تب ہم بہت دور تک چلے تھے
اور بہت دیر تک جاگتے رہے تھے
اور باتوں کے بے انت سلسلے
ہمارے درمیان بچھی مسافت سے طویل تھے
اور جب ہم نے پاؤں اٹھانا سیکھ لیا
تو ہمیں دھکیل دیا گیا
ابدیت کے بے آغاز راستوں کی طرف
اور تم نہیں جانتے تھے
کہ رات زندگی سے قدیم ہے
اور تمھاری ہری بھری شاداب فصلیں
میری روح کو غذا
اور بدن کو روشنی فراہم نہیں کر سکتیں
تم نے بارہا مجھے پکارا
اور میں خاموش رہا
کہ خاموشی میں عافیت تھی
سروں اور ہاتھوں کی فصلیں کاٹنے والے
قلم کی تراش
اور موقلم کی خراش سے نابلد ہوتے ہیں
مٹی راستہ بننے سے پہلے
رنگوں کا بلیدان مانگتی ہے
لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے
ریوڑ ہانکتے ہوئے
دانش اپنے آپ میں تنہا ہوتی ہے
تنہا اور بے امان ۔۔۔۔۔۔۔
میں ان کھیتوں میں بارہا بویا اور کاٹا گیا ہوں
میں دھرتی کا بیج ہوں
یا کائنات کا دل،
تمہاری آواز مجھے نمو کے سفر پر اکساتی رہے گی
اور پھر ایک دن ہم اتر جائیں گے
ان دریاؤں کے پار
جہاں راستے ہیں نہ مسافر
دھوپ ہے نہ شام
بس ایک خواب جیسی دھند ہے
اور پہاڑ جیسی رات
جس کے آخری سرے پر
(اور رات کا آخری سرا ہوتا ہی کب ہے)
ایک کچی دیوار پر پوتا ہوا وقت ہے
اور کوسوں دور
کئی راستوں کو رگیدتی ہوئی
ایک سڑک ہے
طویل اور بے نشان ۔۔۔۔۔۔
کیا ہم اپنے قدموں سے بنائے ہوئے راستوں
اور اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے
درختوں کو بھول سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
(نصیر احمد ناصر، 1988)
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 312