|
|
|
|
|
|
Shared Successfully.
|
|
|
|
* بہت دور گاؤں ھے میرا *
بہت دور گاؤں ھے میرا
جہاں میرے بچپن کے جگنو
ابھی تک گھنے پیپلوں پر چمکتے ھیں
میری زباں سے گرے توتلے لفظ اب بھی
کئی سال سے غیر آباد گھر کی
پرانی، جھکی، آخری سانس لیتی ھوئی
سیڑھیوں پر پڑے ھیں
کہ جیسے خموشی کے سینے میں خنجر گڑے ھیں
بہت دور گاؤں ھے میرا
جہاں شام ھوتے ھی تاریکیاں پھیل جاتی ھیں
آٹے کی چکی کی تک تک
پرندوں کی ڈاریں
کہیں دور جاتی ھوئی
گھنٹیوں کی صدائیں
سبھی ایک خاموش لے میں بدل کر
سیہ رات کی جھیل میں ڈوبتی ھیں
بہت دور گاؤں ھے میرا
جہاں لالٹینوں کی مدھم لرزتی ھوئی روشنی میں
سبق یاد کرتے ھوئے
میں نے اچھے دنوں کے کئی خواب دیکھے
بہت دور گاؤں ھے میرا
جہاں میری پہلی محبت کی پرچھائیاں ھیں
اداسی میں ڈوبے ھوئے راستے
کھیت، اسکول، جوہڑ
درختوں کے جھرمٹ
پراسرار تنہائیاں ھیں
بہت دور گاؤں ھے میرا
جہاں چاند راتوں میں خاموش گلیوں سے
بوڑھے درختوں کی شاخوں سے
سوئے ھوئے آنگنوں سے گزر کر
ھوا اب بھی آتی ھے
چپکے سے مجھ کو بلاتی ھے
لیکن نہ پا کر مجھے لوٹ جاتی ھے
عادت ھوا کی ابھی تک وہی ھے
کہ فطرت ھوا کی ابھی تک وھی ھے
مگر زندگی نے مجھے روند ڈالا ھے
شہروں کی بے راستہ بھیڑ میں۔۔۔۔۔۔۔۔
******************** |
|
|
|
|
|
|
|
|
You are Visitor Number : 327
|
|
|
|