donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Naseer Ahmad Nasir
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* جب پرندہ سفر پہ نکلا تھا *
جب پرندہ سفر پہ نکلا تھا
آسمانوں کا رنگ بھورا تھا
 
تھی ہواؤں سے دوستی اس کی
ریت پر جس کا نام لکھا تھا
 
جس جگہ وہ بچھڑ گیا مجھ سے
راستہ ۔۔۔۔۔۔ راستے سے ملتا تھا
 
منجمد موسموں کی تختی پر
کوئی خوشبو کی دھوپ لکھتا تھا
 
پھر مجھے تیرگی نے ڈھانپ لیا
میں نے سورج کا خواب دیکھا تھا
 
اس کی آنکھوں سے میرے خوابوں تک
خواہشوں کا بسیط صحرا تھا
 
چاند تاروں کے شہر میں ناصر
آبنوسی گھٹا کا پہرا تھا


نوٹ: یہ ایک پرانی غزل ہے جو 1975 میں کہی گئی تھی اور، مجھے اب صحیح یاد نہیں، لیکن 1976 یا 1977 میں حلقہء ارباب ذوق راولپنڈی کے اجلاس میں تنقید کے لیے پیش کی گئی تھی۔ ان دنوں حلقے کے اجلاس نیشنل سینٹر آدم جی روڈ کے ھال میں ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے اس اجلاس میں ڈاکٹر رشید امجد، مظہرالاسلام، سمیع آہوجہ، انوار فطرت، علی محمد فرشی کے علاوہ کئی اور احباب شریک ہوئے تھے۔ احمد فراز نے اس اجلاس کی صدارت کی تھی اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ انہوں نے غزل سن کر بڑا برا سا منہ بنایا تھا۔ ظاہر ہے غزل ان کے مزاج اور ٹیسٹ کی نہیں تھی اور میں اس وقت نو بادہ تھا۔ مجموعی طور پر غزل پر خاصی بحث ہوئی تھی اور اس زمانے کے حساب سے اس کی تازگی، جدید حسیت اور عصری آگہی کو سراہا گیا تھا۔ میں نے اس زمانے میں کافی غزلیں کہی تھیں لیکن کبھی انہیں کتابی شکل نہ دی کیونکہ اس کے بعد میں نظم کے کبھی نہ ختم ہونے والے سفر پر نکل گیا۔ اس دور کو یاد کرتے ہوئے احباب کی دلچسپی کے لیے یہ غزل یہاں پیش کر رہا ہوں۔ یہ میرے پہلے شعری مجموعے میں بھی شامل تھی۔
*******************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 313